ملازمین کے حقوق

Mulazmeen Kay Huqoq

ملازمین کے حقوق

آجر اور اجیر، سیٹھ اور ملازم معیشت کی عمارت کے دو اہم ستون ہیں۔ ایک دولت کا امین ہے، تو دوسرے کے پاس محنت اور قوت ہے۔ دونوں کے خوش گوار باہمی تعلقات معاشی استحکام کی بنیاد ہیں۔ محنت کش دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ ،جو کسی کے پابند نہیں ہوتے، روزانہ کی بنیاد پر اپنا رزق تلاش کرتے ہیں جب کہ دوسری قسم میں وہ افراد شامل ہیں، جو کسی ادارے یا فیکٹری میں ملازمت کرتے ہیں۔اسلام نے دونوں طرح کے محنت کشوں کے لیے اصول مقرر کردیئے ہیں۔حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اجرت طے کیے بغیر مزدور کو کام پر نہ لگایا جائے۔
کام کے دوران مزدور کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے، اس کی ضروریات کا خیال رکھا جائے اورکام کی تکمیل کے فوری بعد پوری اجرت ادا کردی جائے۔اگر مزدور ماہانہ بنیادوں پر کام کر رہا ہے، تو ملازمت شروع کرنے سے پہلے اسے کام کی نوعیت، اوقاتِ کار اور اجرت کے بارے میں نہ صرف بتایا جائے، بلکہ اس سے تحریری معاہدہ بھی کیا جائے۔ متعین کردہ کام کے علاوہ اس سے اضافی کام نہ لیا جائے۔ اگر باہمی رضامندی سے اضافی کام یا وقت سے زیادہ کام لیا جائے، تو اسے اضافی معاوضہ دیا جائے۔کسی بھی ادارے کی ترقی، معاشی استحکام اور اقتصادی حالت کی بہتری اسی وقت ممکن ہے کہ جب اس ادارے کے ملازمین خوش اور مطمئن ہوں۔
ملازمین سے احسان و بھلائی کے بارے میں مزید اسلامی تعلیمات مُلاحظہ فرمائیے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:’’ تمہارے کچھ بھائی ہیں جنہیں اﷲ تعالیٰ نے تمہارے ہاتھوں میں دے رکھا ہے۔ اگر کسی ہاتھ میں اﷲ تعالیٰ نے اس کے بھائی کو دیا تو اس کو چاہیے جو کچھ خود کھائے وہی اپنے مزدور یا ملازم کو کھلائے جو خود پہنے وہی اسے پہنائے۔ اور ان کو اتنے کام کی تکلیف نہ دو کہ ان کے لیے مشکل ہو جائے اور اگر کوئی سخت کام ان پر ڈالو تو تم خود بھی ان کی مدد کرو۔ ‘‘
ملازمین کو حقیر نہ سمجھیں: اپنے ملازمین کوحقیر وکمتر نہ سمجھے بلکہ بحیثیتِ مسلمان اپنا بھائی جانے تاکہ انہیں کمتری کا احساس نہ ہو۔مدینہ منورہ میں سعد نامی ایک مال دار صحابی تھے۔ لوگوں نے انہیں کسی جگہ اپنی دولت، معاشرتی رتبے اور فضیلت کا ناروا اظہار کرتے ہوئے دیکھا۔ اس کی اطلاع آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے فرمایا:’’سعد، کیا یہ مال جس پر تم فخر کرتے ہو، یہ تمہارے زور بازو کا صلہ ہے؟ ہرگز نہیں، یاد رکھو تمہاری امتیازی اور مالی حیثیت کا اصل ذریعہ معاشرے کے محنت کش اور غریب لوگ ہیں۔ یوں مت اتراؤ اور اپنی مال داری کا ذکر کرتے ہوئے محنت کش طبقے کی کبھی تحقیر نہ کرو۔
اجرت کی بروقت ادائیگی: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کام پورا لے کر مزدور کو اُجرت ادا نہ کرنے کو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ لہٰذا جب کوئی مُلازم رکھا جائے تو پہلے ہی کام،وقتِ اِجارہ اور مُشاہَرہ (تنخواہ) وغیرہ طے کرلیجئےاورمقررہ وقت سے زائد بغیر اُجرت کے کام نہ لیجئے، اگر کبھی باہمی رضا مندی سے اضافی وقت کام کروائیں تواس کی اُجرت بھی لازمی ادا کیجئے۔اجرت کی طرح ملازمین کا مشاہرہ (Salary) بھی بر وقت ادا کیجئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ مزدورکا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری اَداکرو۔ ایک اور حدیثِ مبارک ہے کہ جس شخص نےمزدور سے کام پورا لیا، مگر معاوضہ پورا نہیں دیا، میں اس کے خلاف قیامت کے روز خدا کی عدالت میں خود مقدمہ لڑوں گا۔
حوصلہ افزائی کیجئے: ملازمین کی اچھی کارکردگی پران کی حوصلہ اَفزائی کیجئے کہ اس سے کام میں بہتری آئے گی اور اِدارہ ترقی کرے گا،ممکن ہوتو ان کادل خوش کرنےکی نِیَّت سے تحفہ بھی دیجیے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک فرائض کے بعدسب سے افضل عمل مسلمان کے دل کو جائز طریقہ سے خوشی کرنا ہے۔
بدتمیزی کرنے سے بچیں: ملازمین سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو سب کے سامنے جھاڑ پلانے، ڈرانے دھمکانے کے بجائے عفو و درگزر سے کام لیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ملازم ستّر بار غلطی کرے تب بھی اسے معاف کر دو۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ماتحتوں سے بدخلقی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوسکتا ۔
شرعی مسائل سے آگاہی: اِدارے کے قوانین کے ساتھ ساتھ ملازمین کو تجارت اور ملازمت کے شرعی مسائل سے بھی آگاہ رکھیے تاکہ ان کا لقمۂ حرام کی وعیدوں سے بچتے ہوئے حلال کمانے کی ذہن سازی ہوتی رہے ۔
ملازمین کی تیمارداری: ملازمین میں سے کوئی بیمار ہوجائے تو ان کی عیادت اورممکن ہوتو خیرخواہی کی نِیَّت سے مناسب علاج کی سہولت فراہم کیجئے۔
ہمت سے زیادہ کام نہ لیں: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ان سے ایسا کام نہ لو کہ جس سے وہ بالکل نڈھال ہوجائیں، اگر ان سے زیادہ کام لو تو ان کی اعانت کرو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہر ہفتے مدینہ منورہ کے اَطراف میں باغوں اور کھیتوں میں جاتے اور وہاں کام کرنے والے کسی غلام کو وزن وغیرہ اٹھانے میں مشقت ہوتی توآپ اس کی مُعاوَنَت فرماتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں