غضب کا کچرا

Ghazab Ka Kachra

غضب کا کچرا!!!

گزشتہ چند دہائیوں سے کوڑے کرکٹ کی پیداوار دنیا کے تمام ممالک کے لیے بنیادی معاشرتی مسئلہ بن چکی ہے جو ماحولیاتی آلودگی کا سب سے بڑا سبب ہے۔پاکستان میں سالانہ ساڑھے 4 کروڑ ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے، جس میں ہر سال 2 فیصد اضافہ ہورہا ہے۔آگاہی نہ ہونے کے باعث ہمارے معاشرہ میں لوگ راستہ چلتے ہوئے یا گاڑی میں سفر کے دوران سڑکوں پر کوڑا کرکٹ پھینک دیتے ہیں۔یہی حال ہمارے خوبصورت سیاحتی مقامات کا بھی ہے جن کا حسن ہمارے اس رویے سے داغ دار ہورہا ہے۔ نکاسیِ آب کے نالوں، سمندر، دریا اور ڈیمز میں کچرا پھینکنے سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی بڑھ رہی ہے بلکہ انسانی صحت بھی شدید متاثر ہو رہی ہے۔

اسلام آباد کے سملی ڈیم اور راول ڈیم میں پھینکا گیا کچرا پینے کے پانی کو زہر آلود کرتا ہے جس کی وجہ سے انسانوں کے ساتھ ساتھ وہاں پائی جانے والی آبی حیات بھی شدید خطرے سے دوچار ہے۔انفرادی طور پر پھینکا گیا تھوڑا سا کچرا اجتماعی طور پر اتنا مسئلہ بن جاتا ہے کہ اس وقت کروڑوں کی آبادی والے شہر کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ کچرا ٹھکانے لگانے کا بن گیا ہے۔

کراچی میں روزانہ 14000 ٹن کچرے میں سے 8000 ٹن شہر سے باہر لے جاکر کھلے آسمان تلے پھینک دیا جاتا ہے جبکہ باقی 6000 ٹن کچرا شہر میں ہی رہ جاتا ہے۔ یعنی ہر ماہ ایک لاکھ 80 ہزار ٹن کچرا اٹھایا ہی نہیں جاتا ۔ یہ عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے جس کے باعث ملک کا سب سے بڑا شہر کچرے کا ڈھیر بن گیا ۔

کراچی میں کچرا ٹھکانے لگانے کے لیے پانچ پانچ سو ایکڑ کی دو بڑی سائٹس ہیں۔ یہاں شہر بھر کا کچرا جلایا جاتا ہے جس سے نکلنے والا دھواں شہر کی فضاؤں میں منڈلاتا رہتا ہے۔ کچرا پھینکنے کے لیے یہ لینڈفل سائیٹس اب بھر چکی ہیں۔غیر سائنسی بنیادوں پر کچرے کو لینڈ فل سائٹ پر پھینکنے سے میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ گیسز خارج ہوتی ہیں جو گرین ہاؤس گیسز ہیں۔ ان کے اخراج سے موسمیاتی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ یہ گیسز اور دھواں انسانوں میں سانس اور دمے کی بیماریاں پیدا کررہے ہیں۔

بارشوں کے بعد آبادیوں میں موجود کچرا پینے کے پانی میں شامل ہوجاتا ہے جس سے کالے اور پیلے یرقان، پیٹ کے امراض اور پولیو وائرس پھیلنے کے خطرات خطرناک حد تک بڑھ جاتے ہیں۔لوگوں میں یہ شعور اُجاگر کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے کہ آبادیوں میں موجود کوڑا کرکٹ ماحول اور صحت کو شدید متاثر کرتا ہے۔ اس کے لیے لوگوں کو کوڑے دان میں کچرا ڈالنے کی ترغیب دی جائے۔کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والے دکانداروں، خوانچہ فروشوں اور فوڈ اِسٹریٹ انتظامیہ کو آگاہ کیا جائے کہ کوڑا کرکٹ جگہ جگہ پھینکنے کی بجائے کوڑے دان میں ڈالیں۔ حکومت کی جانب سے کچرے کو دوبارہ قابل استعمال بنا یا جائےتو یہ اربوں روپے کی دولت بن سکتا ہے۔ کچرے میں موجود پلاسٹک، کاغذ، شیشہ اور دھات کی اشیاء ری سائیکل ہوکر قابل استعمال بنائی جاسکتی ہیں۔ دنیا کے متعدد ممالک میں اس منصوبہ پر کامیابی سے عمل ہورہا ہے۔اس کے لیے عوامی مقامات پر الگ الگ اشیاء ڈالنے کے لیے مختلف رنگوں کےڈسٹ بن رکھے جائیں۔ مغربی ممالک میں اشیائے خوردنی اور دھات، شیشے ، کاغذ اور پلاسٹک کی اشیاء کو الگ الگ ڈسٹ بن میں ڈالا جاتا ہے۔ اس عمل کے ذریعہ کوڑا کرکٹ دوبارہ استعمال میں لانا آسان ہوجاتا ہے ۔کچرے میں موجود غذائی اشیاء سے بہترین کھاد بنائی جا سکتی ہے۔سنگا پور سمیت کئی یورپین ممالک میں کچرے سے بجلی بھی پیدا کی جارہی ہے ۔صرف کراچی کے کچرے سے 250میگا واٹ سے زیادہ بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔

حکومت پاکستان کو چاہیے کہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے کوڑے کرکٹ کے دوبارہ استعمال اور بجلی بنانے کے منصوبوں پر کام کرے۔ کچرے کو ٹھکانے لگانے کا یہ طریقہ حکومت کا ایک اہم اور مثبت اقدام ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں